The Philisophy of Karabla: Urdu Article By Zafar Iqbal
The Philisophy of Karabla: Urdu Article By Zafar Iqbal
دینِ اسلام کا فلسفیانہ ڈھانچہ بھی ایک پاتالِ سے کم نہیں،اس کی، بناوٹ، افقی لمبائی اور عمودی گہرائی ہم جیسے طالبعلموں کو تو کم یا زیادہ درسِ کربلا سے ہی کچھ کچھ معلوم ہوئی جیسا کہ انسان کے اندر چُھپی ہوئی مُطلق العنا نیت جو شاید میزان کی سب سے بڑی دشمن بھی شمار کی جا سکتی ہے، کو کربلا کے میدان ہی میں پورے زور و شور سے للکارا گیا-یوں ہم طالبِ علموں نے تو مقابلے کے ہنر اور آداب بھی درسِ کربلا ہی سے سیکھے ہیں-
ایک بات تو شاید طے ہے ،کہ، معرکہ کربلا ، دونوں فریقوں کے لئے نہ صرف ناگزیر تھا ، بلکہ دونوں طرف سے بہت سوچ سمجھ کر اور تمام باریکیو ں کے ساتھ لڑا بھی گیا، مثلاََ مدینہ سے روانگی سے قبل ،اما م حسینّ نے نبی پاکّ کے چچا ّحضرت عباّس کو ساتھ چلنے کی دعوت بھی دی اور اس سلسے میں مشورہ بھی مانگا – مشورہ تھا، بال بچوں کو ساتھ لے کے نہ جائیں یا پھر یمن جائیں، جہاں علی ّ کے پیروکار ہیں ، جواب تھا عموں جان آپ کی بات بالکل درست ،مگر مجھے تو وہی کرنا ہے جو ناناّ نے خواب میں کہا ہے- اسی طرح عبداللہ بن زبیر جو کہ مکہ میں حکومت کے خلاف محاذ بنائے بیٹھے تھے کو بھی ساتھ چلنے کو کہا ، اور ابن زبیر کے اس عُزر پہ کہ آپ بھی نہ جائیں ، یہی رکیں، کیونکہ ہم نے رسول پا ک ّ کو یہ کہتے سنا ہے، کہ میرے ایک بیٹے کو کوفہ کی جانب سفر میں ایک بیابان مقام پر بھیڑ کی طرح ذبہ کر دیا جائے گا-اس عُزر پہ حسینّ نے کیا خوب جواب دیا، “اے ابنِ زبیر کیا آپ سمجھتے ہیں، ہم نے یہ بات نہیں سن رکھی؟ ہاں، آپ اگر خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لپٹ بھی جاؤ گے، تب بھی مارے جاؤ گے “ ۔ پھر تاریخ نے دیکھا، یہی بات حرف با حرف درست بھی ہوئی، جب حجاج بن یوسف نے ابن زبیر کو خانہ کعبہ کے احاطے میں قتل کیا، تو آپ کے خون کے چھنٹے خانہ کعبہ کی دیوار پر بھی پڑے.
پھر یزیدی فوج کے سپہ سالار عمر سعد کے ساتھ آخری میٹنگ ،جس میں عبادت کے لئے ایک رات کی مہلت مانگی گئی یا مخالفین کو دی گئی ،اپنے ارادوں میں پلٹنے کے لئے!حسینٌ نے مسکراتے ہوئے میٹنگ کو اس جملے پہ ختم کیا، “ ابنِ سعد ،ایران کی حکومت تو تمھیں نہیں ملنے والی”، جواب تھا ، میرے پاس ابن زیاد کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا واعدہ ،محفوظ ہے- مگر جب وہ مانگنے گیا تو پوچھا گیا،کہ ،کیونکہ دی جائے، اس نے لکھا ہوا دے دیا اور پوچھنے والے نے پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیا -پھر بدبخت عمر سعد باقی زندگی، امیر مختار کے ہاتھوں عبرت ناک انجام تک،بس یہی کہتا رہا، “عبرت پکڑو مجھ سے ، جس نے لالچ میں جہنم خود خریدی ہے “- اسی پس منظر میں، عمر سعد کا معرکہ کربلا میں ، اپنے بھانجے-دوست کے ساتھ ادا ہوا ایک مقالمہ بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا،”جنت/دوزخ نہ ہوئی تو ایران کی حکومت کے مزے، اور اگر ہے بھی تو کیا، توبہ کے بعد، دونوں کے مزے “ – اب یہ خود واضحتی مقالمہ تو چیخ چیخ کر کہ رہا ہے، کہ کربلا کا معرکہ نہ صرف نا گزیر تھا، بلکہ اسی طرح لڑا جانا بھی چاہیے تھا، جس طرح لڑنے کا حق حسینّ نے ادا کیا- ویسے عمر سعد کے والد نے ہی یزید کے والد کو یہ تاریخی مشورہ دیا تھا، “صبر کرو، اور علیّ کو عدل، مساوات اور میریٹ کے نفاظ کے عوامی مطالبے کو پورا کر لینے دو، سب تم سے آ ملیں گے”- پھر یہ بات بھی حرف باحرف صحیح ہوئی ، تمام تاریخی حوالوں سے، اور یوں ایک قدرتی تعلق بھی رکھتی ہے معرکہِ کربلاکے ناگزیر ہونے پر بھی اور کس طرح لڑا جائے اس پر بھی!-
مندرجہ ذیل نظم سے کوشش کی ہے، کہ شاید کچھ تصویر آپ کوبھی دیکھا سکیں ِاس درسِ کربلا کے پاتالِ کی، جو ہم جیسے طالبِ علم نے سمجھی اور محسوس کی-
تو خوابِ سَقِیفہ کی تعبیر ، ذرا دیکھ
علیٌ وبتولٌ کی اُجَڑی جاگیر،ذرا دیکھ
اِتنی سادہ بھی نہیں کَربَل کی کہانی
خُونِ اَصغرٌ سےلکھی تحریر، ذرا دیکھ
قرآن ومحمدٌ وُ آلِ محمدٌ جُز ہیں کل کا
حُسینٌ نے کی ہے یہ تجوید، ذرا دیکھ
وقت کا غاصب پھر بیعت نہ مانگے
تو وقت کے ناظِمٌ کی تدبیر،ذرا دیکھ
ضَربَاتِ یَداللہ ہوں،کہ سجدہِ شبیریٌ
تو اِسلام کی عظمت، تعمیر، ذرا دیکھ
پلا تے رہے پانی،وہ دشمن کی سپہ کو
محمدٌ کا گھرانے ہے، امیرّ ، ذرا دیکھ
عاشور کی شب،شمع گُل تو ہوئی تھی
پھروفادار جَریُوںٌ کےضمیر، ذرا دیکھ
اکبرٌ ہوں، کہ اصغرٌ، عباسٌ کہ قاسمٌ
عمرانٌ کے گھر کے، آہیرٌ ، ذرا دیکھ
کیا حرٌ کا مقدر،واہ امامٌ کی عظمت
اِک پَل میں پَلٹگئی تقدیر، ذرا دیکھ
تِھی بَن میں ہرن،کُل فوجِ اَشقِیاء
عَباسٌِ دلاور کا زورِشمشیر،ذرا دیکھ
دیتے راہےمہلت، بَدبَخت سِپَہ کو
اُس نفسِ مطمئنہٌ کی تبلیغ،ذرا دیکھ
شَبیرٌ کےسجدے پہ، قدسیٌ رہےکہتے
اِس نَاطقِ قرآنٌ کی، تفسیر، ذرا دیکھ
نقشِ اَوَّلٌ بھی اکبرّ، یوسفٌِ ثانی بھی
وہی٘ ہیں، ذبحِ عظیمٌ کی تکمیل،ذرا دیکھ
لَاشہِ اکبرٌ کو اٹھائے،حُسینٌ ہیں آتے
اے قَادرِمُطلِق،ماَلکِ تقدیر، ذرا دیکھ
بے گورو کفن ، پَامال ہوئے لاشے
کیا حدتھی ستم کی یہ تصویر،ذرا دیکھ
تم لوُٹ کےخیموں کوآگ لگا دینا
تو وقت کے ظالم کی تجویز،ذرا دیکھ
جلتے ہوئے خیمے سے، بیمارٌ اٹھائے
وہٌ آتیں ہیں زینبٌ، شبیرٌ، ذرا دیکھ
استغاثہِٗ فدک ہو ، کہ شامِ غریباں
تو اجرِ رسالت کی، تاویل، ذرا دیکھ
بے رِدَا زینبٌ، اور شام کا بازار
وارثِ تطہیرٌ کی ہوتی توقیر، ذرا دیکھ
ظالم نے پڑھا، جو، دربار میں قرآن
زینبٌ نے کی،جو، تفسیر، ذرا دیکھ
کَمِسنٌ سکینٌہ کوبھائی زندان میں لائے
رہیٌ چومتی بیمارٌ کے زنجیر، ذرا دیکھ
زندان کا دربان عابدٌسے یہ کہتا ہے
اَب باباٌ کو نہیں روتی اسیرٌ، ذرا دیکھ
بے کفن بہنٌ کی میت کو ہیں لائے
بیمارٌ کے رکتے ہی نہیں نیر، ذرا دیکھ
زینبٌ نے کہا ناناٌ، تیرا دین بچا آئی
میرےٌ عونٌ و محمدٌ کی تنویر،ذرا دیکھ
اکبرٌ تیرے واعدے پہ،صغراٌ رہی زندا
یثرب میں وہ روتیٌ، ہمشیر، ذرا دیکھ
طَلوعِ سحردیتی ہے،ظلمتِ شب کو
توکَربل کی ضرورت،تجدید،ذرا دیکھ
ظفرّ، کوئی کَربل جو سَجے،بُلند سر رکھنا
حُسینٌ نےکھینچی ہےیہ لَکیر، ذرا دیکھ
ڈاکٹر ظفر اقبال
دس محرم ۱۴۴۵ھ